1980یعنی
آج سے 27برس قبل ایشیاءکے عظیم جاسوسی
ناول نگار ابن صفی کا انتقال ہوا ۔
اپنے انتقال سے پہلے انہوں نے اپنا
غیر جاسوسی ناول ”تزک دوپیازی“ مکمل
کرلیا تھا۔ سینکڑوں ناولوں کے خالق
ابن صفی نے برصغیر کی کئی نسلوں کو
اپنی شگفتہ نثر سے متاثر کیا ۔ انہو ں
نے عام قاری میں مطالعہ کاذوق پیدا
کیا ۔ اس ہمہ صفت شخصیت کے جاسوسی
ناولوں کی اشاعت سینکڑوں میں نہیں
بلکہ ہزاروں تک پہنچ چکی تھی ۔ ان کے
ناولوں کے معیار کو سراہتے ہوئے
اُردوزبان کی جرمن اسکالر ڈاکٹر
کرسٹینا اویسٹرہیلڈ کا یہ کہنا ہے کہ
”میں ابن صفی کے معیار سے بے حدمتاثر
ہوں وہ بہت ہی باشعور ادیب تھے ۔ ان
کے نالوں میں مکالمے او رطنز ومزاح
خوب پائے جاتے ہیں “۔
میرے خیال میں طنز کی کاٹ اور مزاح کا
اعلیٰ معیار ابن صفی کی تحریروں کی
مقبولیت کا راز تھا ۔ وہ سنجیدہ سے
سنجیدہ بات کو اپنی شگفتہ بیانی سے
زعفران زار بنا دینے میں کمال کی
صلاحیت رکھتے تھے ۔ جب انہوں نے اردو
میں تفریحی ادب کی بناڈالی ،اس وقت
اُردو میں جاسوسی ناولوں کے نام پر
انگریزی نالوں کے چربے شائع کرنے کا
رواج تھا۔ بہتیرے ادیب ان انگریزی
ناولوں کو ہندوستانی لباس پہنا کر
اپنے نام سے شائع کرتے تھے ۔ معرف
انگریزی ناول نگار رائیڈر ہیگرڈ کے
شہرہ آفاق
پراسرار ناول
"She"
کو ایک حضرت نے ”عذرا“ اور ”عذرا کی
واپسی“ کے نام سے اپنا تخلیقی کارنامہ
بتا کر شائع کردیا۔ اسی قسم کے دوسرے
واقعات بھی رونما ہوئے ۔بیشتر لوگوں
نے رینالڈز کے نالوں کو اپنے نام سے
چھاپا۔”نیلی چھتری“ والے ظفر عمر خاصے
مشہور بلکہ بدنام ہوگئے ۔ انہوں نے
عالمی سطح کے ایک معروف ناول کا ترجمہ
کرکے اپنے نام سے شائع کیا جس کی دھوم
مچ گئی لوگ مدت تک اسے ظفر عمرکا
تخلیقی کارنامہ سمجھتے رہے ۔
خود ابن صفی کے ابتدائی آٹھ ناولوں پر
انگریزی ناولوں کا اثر رہاہے جس کا
ایماندارانہ اعتراف انہوں نے برملا
کیا ہے لیکن بعد کے ناولوں میں ہم
دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی الگ راہ
نکالی ۔ تمام ناول ان کی اپنی تخلیقی
اپج اور صلاحیتوں کے آئینہ دار ہیں ۔
اگرچہ اپنے معروف کردار انگریزی
ناولوں سے انہوں نے لئے تھے جیسے
عمران انگریزی کے جاسوسی نگار ہرمن
سیرل میکلین کے مزاحیہ کردار ”بلڈاگ
ڈرمند“ کی ہو بہو نقل ہے اسی طرح جوزف
مگونڈا ، رائیڈر ہیگرڈ کے
”امسلوپوگاس“ اور سنگ ہی سیکس روہمر
کے ”ڈاکٹر مانچو“ کی کامیاب کار بن
کاپیاں ہیں لیکن ابن صفی نے ان
کرداروں کو مشرقی رنگ دے کر جاوداں
بنا دیا ۔
ناول نگاری میں ان کی شہرت پورے
ایشیاءمیں پھیل چکی تھی پھر کراچی سے
انہوں نے چار بڑے تفریحی رسالے نکالنا
شروع کردیے۔ ”نیا رُخ “، ”حجاب“،
”آنچل “اور ”نئے افق“۔پہلے تین رسالے
ماہنامے تھے جن میں اردو کی کہانیوں
کے ساتھ انگریزی کہانیوں کے ترجمے بھی
چھپتے تھے ۔”نئے افق “ ایک بالکل نئے
انداز کا پندرہ روز رسالہ تھا اور یہ
بات حیران کر دینے والی ہے کہ یہ
پندرہ روزہ ہر پندرہواڑے کے بعد تین
سو صفحات کی ضخامت لے کر انتہائی
ناقابل یقین پابندی کے ساتھ منظر عام
پر آجاتا تھاکہ قارئین انگشت بدندان
رہ جاتے تھے ۔ ہرشمارہ دنیا بھر کی
تازہ ناول مکمل صورت میں شائع کرتے
تھے اور اسی پندرہ روزہ میں انہوں
اپنا ایک غیر جاسوسی ناول”تزک
دوپیازی“ بھی قسطوں میں لکھنا شروع
کیا تو ان کے مداحوں نے دیکھاکہ اس
ناول کی صورت میں اردو ادب کے ایک
اعلیٰ فکاہیہ ناول نے جنم لیا ہے ۔
بیانیہ انداز کے اس ناول نے ابن صفی
کی شخصیت کے ایک اور روشن ترین پہلو
کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا ۔
”تزک
دوپیازی“ کھوئے ہوﺅں کی تلاش پر مبنی
ایک ساگاہے۔ موضوع جس قدر سنجیدہ ہے
اندازِ بیاں اس سے زیادہ شگفتہ
اوراعلیٰ پائے کا فکاہیہ ہے ۔ اصل میں
مزاح ابن صفی کی گٹھی میں پڑا تھا ۔
1952ءسے پہلے یعنی جب انہوں نے جاسوسی
ناول نگاری کا ابھی آغاز نہیں کیا تھا
وہ ”طغرل فرغان“ اور ”اسرار ناروی“ کے
نام سے مزاحیہ مضامین ہی لکھتے تھے جو
ممبئی کے ”شاہد“ ویکلی اور الہ آباد
کے ماہنامہ“نکہت“ میں چھپتے تھے ۔
پردیسی لٹیرا ، قابل اعتراض تصویر ،
چراغ اللہ دین ،چاپلوسی ،شیر کا شکار
، ہوائی قلعہ ، ڈپلومیٹ مرغ ، لالو
کھیت کا خلیفہ ، ٹیمز فانڈ(جمیز بانڈ
کی پیروڈی)، ایک ادبی نشست میں ، میں
افسانہ کیونکر لکھتا ہوں ، دیوانے کی
ڈائری ، اب کدھرﺅں جیسے مزاح پارے
انہی دنوں کی یاد ہیں ۔
”تزک
دوپیازی“ میں انہوں عوامی کردار ملا
دو پیازہ کو ایک نیا رنگ اور ایک نیا
روپ عطا کیا ۔ اپنے منفرد اسلوب سے
ملا دوپیازہ کو نئے اور جدید تر
پیچیدہ واقعات میں الجھاکر ایک نئی
طلسم ہوشربا تخلیق کی ہے ۔
بے ساختی ،خوش اندازی ، برجستگی اور
سادگی ”تزک د وپیازی“ کی نمایاں
خصوصیات ہیں ۔ اپنے زبردست ادبی رنگ
میں یہ ایک مکمل اور بھر پور مزاحیہ
شاہکار ہے اور انپے خالق کی ادبی شان
و شوکت کا منہ بولتا ثبوت ۔
ناول کا ہیرو ابوالحسن اپنی ماں کے
کہنے پر اپنے گمشدہ باپ کی تلاش میں
نکل پڑتاہے اور ابتداءمیں ہی ایک عورت
نماچڑیل نسترین بانوکے ہتھے چڑھ جاتا
ہے جو اسے تگنی کا ناچ نچاتی ہے ۔ اسے
ایک سادہ لوح متلاشی سے ایک عیار
درویش بنا ڈالتی ہے ۔ انوکھے ، دلچسپ
اور سنسنی خیز واقعات کے ایک پرپیچ
سلسلہ میں اسے پھنسا دیتی ہے ۔سینکڑوں
کردار ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ
ہوجاتے ہیں ، ہنستے بستے کھاتے پیتے
ڈرتے پھرتے زندہ جاوید کردار۔ اس ناول
میں ابن صفی نے کردار نگاری کی ایک
شاندار مثال قائم کی ہے ۔
”ہائے
کس مصیبت میں پھنس گیا ۔ کیسی دُرگت
بنارہی ہے ، خوش قسمت تھا اس کا شوہر
، جس کا پیچھا خود اسی نے چھوڑ دیا
تھا لیکن میں نہیں جانتا تھاکہ روحانی
معالج بن کر میں خود اپنی روح کو
شیطان کے حوالے کررہاہوں۔ چڑیل کی طرح
چمٹ گئی تھی ....بچپن میں جب کبھی میں
اپنے سر میں خوشبودار تیل ڈالنے کی ضد
کیا کرتا تھا تو میری ماں کہتی تھی،
ارے باو
لا ہوگیاہے ،بچے سر میں خوشبودار تیل
ڈالتے ہیں تو چڑیل چمٹ جاتی ہے ۔ اے
میری ماں !تیرے اس قول نے مجھے جوانی
میں بھی خوشبو دارتیل کے استعمال سے
باز رکھا ۔ پھر یہ چڑیل کیسے چمٹ گئی
۔ اب میں کیا کروں ؟ کس پیر سے اپنی
جھاڑپھونک کراﺅں ؟کس سیانے سے
تعویذلوں کہ اس (نسترین بانو)نے مجھے
ہی پیر بنا دیاہے اور مزید بناتی چلی
جارہی ہے “۔
”سہ
پہر کو قطب قلی آگیا ۔ بہت خوش نظر
آرہا تھا ۔ میں سمجھا شاید عہدے میں
مزید ترقی ہوئی ہے لیکن اس بدبخت نے
کوئی اور ہی داستان چھیڑ دی ۔ کہنے
لگا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولے
کے لئے لیٹا تھا ،آنکھ لگتے ہی آپ کے
پیرومرشد نظر آئے۔ یہ کلام سن کر میں
سناٹے میں آگیا ۔ کہاں کے پیرومرشد ؟
کیسے پیر ومرشد؟ جو اس ناہنجار کو
خواب میں بھی نظر آنے لگے ۔ لیکن
بہرحال مجھے اپنے جھوٹ کا بھرم رکھنا
تھا ۔ تڑپ کر کہا”اے قطب قلی ! کیا
کہہ رہاہے ، کیاپیرومرشد کو میری کسی
بات پر غصہ تھا“۔
”تزک
دوپیازی “ میں ابن صفی نے جعلی پیروں
، جھوٹے درویشوں ، ریاکارحکومتی
کارندوں ،لالچی عورتوں کی ہوس رانی ،
سیاسی موقعہ پرستوں کی پول کھول دی ہے
۔ مذہب کی آڑ میں اپنے مفادات اور
مقاصد حاصل کرنے والوں کی بھی خوب خبر
لی ہے ۔ عوام کی ضعیف الاعتقاد ، توہم
پرستی اور بے بنیاد رسوم پر کاری ضرب
لگائی ہے ۔
”مجھے
نورپور سے کیوں لائے تھے ؟“
”آپ
فرماچکے ہیں کہ شاہ لولوائی یہی چاہتے
تھے
“
”اور
اب یہ چاہتے ہیں شاہ لولوائی کہ تم
صرف ان لڑکیوں کو لے اڑو‘....‘
”نہیں
چاہتے تو پھر شاہ لولوائی نے یہ بات
ہمارے دماغوں میں کیوں اُتاری ہے ؟“
”شاہ
لولوائی نے اُتاری ہے ؟“ میں نے پھاڑ
کھانے والے انداز میں سوال کیا ۔
”اور
کیا ؟“
”جہنم
کے کندو! شیطان نے اُتاری ہے ۔ یہ بات
تمہارے دماغوں میں
“
”شاہ
لولوائی کی موجودگی میں شیطان کا کیا
کام ؟“
”اُس
نے خدا کو بھی اپنی اکڑدکھائی تھی ۔
شاہ لولوائی کس شمار وقطار میں ہیں“۔
”نہیں
نہیں “ قادر ہاتھ ہلا کر بولا ۔
”شیطان ویطان کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
شاہ لولوائی ہم سے دین کی خدمت لینا
چاہتے ہیں “۔
”وہ
کس طرح مردود!“
”ہم
انہیں تلقین کرکے سیدھی راہ پر لائیں
گے اور پھر....“
”اور
پھر کیا ؟“
”ان
سے نکاح پڑھوالیں ۔ دوجبار کی اور
دومیری....“
”کیوں
بدبختیوں نے آگھیرا ہے “۔
”آپ
نے انہیں دیکھا نہیں ہے ۔ ورنہ یہی
سوچتے کہ دو اور کیوں نہ ہوئیں ۔ آپ
بھی ثواب کماتے
....“
”اور
ان کا کیا ہوگا جنہیں گھروں میں چھوڑ
آئے ہو“؟
”ان
کامقدر “، جبار جلدی سے بولا ”کس نے
کہا تھا کہ اتنی موٹی ہوجائیں “۔
”میرے
ہاتھ پیروں کی جان نکل گئی اور میں
وہیں لیٹ رہا....تصور بھی نہیں کرسکتا
تھا کہ وہ اس طرح پلٹا کھاجائیں گے ۔
دین کی خدمت کرنے جارہے ہیں حرام خور۔
بس دین میں اتنا ہی رہ گیا ہے کہ
شادیوں پر شادیاں کرتے چلے جائیں “۔
ابن صفی انسانی نفسیات
کی تمام تر جزئیات اور پیچیدگیوں پر
بلا کا عبور رکھتے تھے ۔ انسانی
نفسیات کی پرپیچ اور عمیق ترین
اندھیروں کو اپنے مخصوص اور پرلطف
انداز میں ”تزک دوپیازی“میں بے نقاب
کیا ہے ۔ ”تزک د وپیازی“ بلاشبہ ہمارے
کلاسیکی ادب کا ایک شاہ پارہ ہے۔ جو
بار بار پڑھنے کے قابل ہے بالکل ان کے
جاسوسی ناولوں کی طر ح، جن کو لاکھوں
قارئین نے ہزار ہزار پڑھاہے اور اب
بھی ان کی قرا
ت جاری ہے ۔