IBNe SAFi 

 THE GREAT MYSTERY WRITER

 

HOME  INTRODUCTION  BIOGRAPHY  WORKS  POETRY  AUDIO  FEEDBACK  FAQ  DETECTIVES  VILLAINS 

            WITS & WISDOM  PHOTO GALLERY  DHAMAKA  PICTORIAL  ESSAYS  TITLES  OBITUARY  CREDITS  EMAIL

              

                      ابن صفی کی داستان آج بھی جاری ہے               Back

                                                          (Voice of America - Urdu News)            

25 July 2009

 

لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں | لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں

فوٹو ibnesafi.info

ابنِ صفی کی مشہورِ زمانہ عمران سیریز کا ایک ناول

ا

چاہے اردو کے جغادری نقادوں کی نظر میں جاسوسی ادب کی جو بھی اہمیت ہو، اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج تک اردو کے کم ہی کسی دوسرے ادیب کو پڑھا گیا ہو گا۔

ابن صفی کی پیدائش 26 جولائی سنہ 1928ءکو الہ آباد ضلع یو پی کے چھوٹے سے شہر نارا میں ہوئی تھی۔  ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ نارا سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر نوح ناروی ان کی والدہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ اس لیے ابن صفی کا خاندان بھی ادبی تھا۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں ”طلسمِ ہوش ربا“ کا مطالعہ کر لیا تھا۔  اس داستان نے جہاں ان کے ذہن میں تخلیقن اور تخیلاتی عناصر کی بنیاد ڈالی، وہیں اس کتاب کے محاورات اور تراکیب سے بھر پور زبان نے بھی ان کے ذہن کی تشکیل میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔  اپنے گھر میں انہوں نے اردو کی دیگر کلاسیکی کتابوں کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ ایک روز انہیں عذرا اور عذرا کی واپسی جیسی دو کتابیں مل گئیں۔ یہ رائڈر ہیگرڈ کے ناول”شی“ کا ترجمہ تھی۔ ابن صفی نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ اس طرح کی چیزیں تو وہ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے لکھنا شروع کر دیا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو انہوں نے ایک افسانہ”ناکام آرزو “کے نام سے لکھا،  جو ممبئی کے ہفت روزہ رسالہ ” شاہد “ میں شائع ہوا ، جس کے مدیر عادل رشید تھے۔ ابن صفی نے شاعری بھی کی وہ جگر مراد آبادی کے طرزِ کلام سے متاثر تھے۔ انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ”باز گشت “ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔

آگرہ یونیورسٹی سے بی  اے پاس کرنے کے بعد ابنِ صفی ایک اسکول میں استاد مقرر ہو گئے اور اپنا ذاتی ماہنامہ ” نکہت“ الہ آباد سے جاری کیا۔ اس کی اشاعت میں انہیں اپنے دوست عباس حسینی کا تعاون حاصل ہوا۔ نکہت کی شکل میں ابن صفی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فطری حس مزاح کے اظہا رکا موقع ملا۔ انہوں نے نکہت میں ڈیڑھ سو سے زائد طنزیہ مضامین لکھے جن میں کچھ پیروڈیاں بھی تھیں۔ ان میں سے مضامین کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوا جس کا عنوان ہے ”ڈپلومٹ مرغا“ اسے پڑھنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ابن صفی میں طنز و مزاح کی بے پناہ صلاحیتیں تھیں۔

 لیکن آگے چل کر ابن صفی کو جاسوسی ناول نگار کی حیثیت سے شہرتِ جاوداں حاصل ہونے والی تھی اس لیے انہوں نے چند انگریزی جاسوسی ناولوں کا ترجمہ کرنے کے بعد خود ناول لکھنے شروع کیے اور مارچ سنہ 1952ءمیں جب ابن صفی کاپہلا ناول ” فریدی اورحمید“ کے بنیادی کرداروں پر مشتمل ”دلیر مجرم“ کے نام سے الہ آباد سے شائع ہوا تو پھر انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ”فریدی اور حمید“ کے کردار پر مشتمل تقریباً 45ناولوں کی زبردست کامیابی کے بعد سنہ 1955ءمیں انہوں نے عمران کا اچھوتا کردار تخلیق کیا۔ عمران، حمید، کرنل فریدی اور قاسم جیسے کرداروں کو انہوں نے زندہ جاوید بنا دیا۔

جاسوسی ناولوں کی تشکیل کا خیال ان کے ذہن میں یوں آیا کہ اس زمانے میں گھٹیا قسم کے رومانی اور جنسی ناولوں کا بازار میں سیلاب سا آگیا تھا اور اس زمانے کی نو جوان نسل تباہ ہو رہی تھی۔ اس وقت ابن صفی نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے کہ وہ نوجوان نسل کو فحش ادب کی طرف جانے سے روک دیں گے۔ انہوں نے جاسوسی دنیا میں ناول لکھنے شروع کیے تو اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔

سنہ1952ءمیں ابن صفی پاکستان چلے گئے۔ یہاں انھوں نے”عمران سرنیز“ اور جاسوسی دنیا کے علاوہ ہر ماہ ایک ناول شائع کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ وقت آگیا کہ وہ اردو کے چند سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں شامل ہو گئے لوگ ان کے ناولوں کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔

1960ءمیں ابن صفی شدید طور پر علیل ہو گئے اور تین برسوں تک وہ کچھ نہ لکھ سکے۔ صحت یابی کے بعد ان کا پہلا ناول”ڈیڑھ متوالے“ شائع ہوا اور اس کی اتنی زبردست پذیرائی ہوئی کہ پندرہ ہی دنوں کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔ ابن صفی کے ناول جب ہندی میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے تو اس زبان میں بھی انھیں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی پھر ان کے ناول بنگلہ، گجراتی، تامل اور تیلگو مںو بھی چھپے اور اس زبان کے بھی قارئین نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

اشاعتی دنیا میں شاید سرقہ کی اتنی بدترین مثال دوسری نہیں ملے گی جتنی ابن صفی کے ناولوں کے سلسلہ میں ملتی ہے۔ ابن صفی کے ناولوں کی مقبولیت دیکھتے ہوئے کچھ اور اصحاب نے اسی طرح کے ملتے جلتے ناموں سے ناول شائع کرنے شروع کر دئے۔ کسی نے این صفی نام رکھا تو کسی نے اببن صفی اور ان اصحاب کے بھی سیکڑوں ناول شائع ہو گئے یہاں تک کہ کانپور کے ایک دیدہ دلیر پبلشر نے تو ابن صفی کے نام سے ہی ناول شائع کر نا شروع کر دئے۔ ابن صفی لاکھ تردید کرتے رہے کہ یہ ناول ان کے لکھے ہوئے نہیں ہیں لیکن کون سنتا تھا۔

ابن صفی نے ڈھائی سو سے بھی زائد جاسوسی ناول لکھے اور صرف 52سال کی عمر میں 26جولائی 1980ءکو ان کا کراچی میں انتقال ہو گیا۔

مشہور انگریزی ادیب اگاتھا کرسٹی نے کہا تھا کہ اگرچہ میں اردو نہیں جانتی لیکن مجھے برِ صغیر کے جاسوسی ناولوں کے بارے میں معلومات ہیں۔ وہاں صرف ایک ہی اصل ناول نگار تھا، ابنِ صفی۔ 

پروفیسر عبد المغنی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ”جاسوسی ناول نگاری میں ابن صفی انگریزی میں شرلا ک ہومز کے خالق‘ آرتھر کونن ڈوائل کی سطح پر ہیں۔“

ابن صفی کی شاعری بھی اہمیت کے حامل تھی۔ کیوں کہ وہ شاعرانہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ان کے پاس شاعری کے لیے وقت نہیں تھا اس کے باوجود انہوں نے جو شاعری کی اس میں بہت سے اچھے اشعار ملتے ہیں۔ مثلاً ان کی یہ نعت نما نظم

:
میرے آقا میں کس منہ سے در پر تیرے حاضری دوں
میرے ماتھے پہ اب تک نشان عبادت نہیں
ایک بھی نیک عادت نہیں
میری جھولی گناہوں سے پر ہے
میرے ہاتھوں کی آلودگی باعث شرم و غیرت بنی

 

اس کے علاوہ غزل کے کچھ اشعار:
 

کچھ بھی تو اپنے پاس نہیں جز متاعِ جاں
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کوئی ہے امتحاں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل سے دماغ و حلقہ ٴعرفاں سے دار تک
ہم خود کو ڈھونڈھتے ہوئے پہنچے کہاں کہاں
اس بے وفا پہ بس نہیں چلتا تو کیاہوا
اڑتی رہیں گی اپنے گریباں کی دھجیاں
ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
جس کے سپرد کیجئے اقلیمِ جسم و جاں

 

http://www1.voanews.com/urdu/news/ibne-safi-22july2009-51414502.html

 

 


Copyright © 2005 Mohammad Hanif